انڈین ریاست گجرات کے شہر بھاؤنگر میں انڈیا کے جشن آزادی کے موقع پر ایک سکول پروگرام کے دوران برقع پہنی لڑکیوں کو ’دہشت گرد‘ کے طور پر پیش کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
سکول پروگرام کی اس ویڈیو میں کچھ لڑکیوں کو کھلونا بندوقوں کے ساتھ سیاہ برقعے پہنے دیکھا جاسکتا ہے، جو کہ دوسری لڑکیوں کو گولی مارنے کا ڈرامہ کر رہی ہیں۔
پانچ منٹ دو سیکنڈ کی اس ویڈیو میں پس منظر میں جشن آزادی کے گانے چل رہے ہیں اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پہلگام حملے کا بھی ذکر ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار الپیش دابھی کے مطابق اس ویڈیو نے ایک نئے تنازعے کو جنم دیا ہے اور مسلمان کمیونٹی کے رہنماؤں نے کلکٹر کو خط لکھ کر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
تنازعے کی وجہ کیا؟
بھاؤنگر شہر کے علاقے کمبھرواڑہ کے ایک سکول میں 15 اگست کو انڈیا کا یوم آزادی منایا گیا تھا۔ اس دوران کچھ طالبات کو برقعے پہنے اور سفید لباس اور زعفرانی سکارف پہنی لڑکیوں پر حملہ کرنے والے ’دہشت گرد‘ کے طور پر دکھایا گیا تھا۔
اس پروگرام کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مسلمان کمیونٹی نے اس ڈرامے پر اعتراض کیا اور بہت سے لوگوں نے ضلع کلکٹر کے دفتر میں درخواست جمع کروائی۔
مسلمان کمیونٹی کے رہنما ظہور بھائی جیجا نے میڈیا کو بتایا کہ ’اس ڈرامے میں سیاحوں اور فوج کو دکھایا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ڈرامے میں لڑکیوں کو برقع پہن کر دہشت گرد بنا کر مسلمانوں کو دہشتگرد ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔‘
ظہور بھائی جیجا نے سکول کے پرنسپل اور دیگر اساتذہ پر الزام لگایا ہے کہ اس کے ذمہ داران وہ ہیں۔
ایک ہندو کے قبولِ اسلام کی وائرل ویڈیو جو درگاہ حضرت بل کے امام پر پابندی کا باعث بنی: ’اب میں درگاہ کا پانی کے راستے دیدار کرتا ہوں‘وہ مسلمان خاندان جنھیں ہندوؤں کے دباؤ میں آ کر اپنا گھر بیچنا پڑاکالج کیمپس میں نماز پڑھنے کی ویڈیو وائرل ہونے پر مسلمان پروفیسر کو چھٹی پر بھیج دیا گیامیوات میں ہلاک ہونے والے امام مسجد کی وائرل ویڈیو: ’ہندو مسلم بیٹھ کے کھائیں تھالی میں، ایسا ہندوستان بنا دے‘
انھوں نے کہا کہ ’ان لوگوں نے ملک میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ برقعے کے ذریعے مسلمانوں کو جس طرح بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
’مقصد بچوں اور والدین کو آپریشن سندور کی کامیابی سے آگاہ کرنا تھا‘
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سکول کے پرنسپل نے معافی مانگی ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہمارے سکول میں ہر سال قومی تہوار منائے جاتے ہیں۔ اس بار ’آپریشن سندور‘ کے عنوان پر ایک ڈرامہ پیش کیا گیا۔‘
’ہمارا مقصد صرف بچوں اور والدین کو ’آپریشن سندور‘ کی کامیابی سے آگاہ کرنا تھا اور کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں کسی بھی قسم کی کوتاہی اور کسی کمیونٹی کو پہنچنے والے نقصان پر معذرت خواہ ہوں۔‘
’جانچ کی جائے گی کہ کیا سکول نے یہ کام جان بوجھ کر کیا‘
بھاونگر پرائمری ایجوکیشن کمیٹی کے ایجوکیشن آفیسر منجل بدمیا نے بی بی سی کے الپیش ڈابھی کو بتایا کہ ’شہر میں پرائمری ایجوکیشن کمیٹی کے سکولوں میں 15 اگست کو جشن آزادی منایا گیا، جس میں بچوں نے ثقافتی پروگرام پیش کیے۔‘
’اس بار آپریشن سندور کے موضوع پر پروگرام منعقد کیے گئے۔ لڑکیوں نے پہلگام واقعے کو ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کیا جس میں انھوں نے برقعے پہن رکھے تھے۔ ہمیں اس حوالے سے مسلم کمیونٹی کی طرف سے شکایت کی گئی۔‘
ایجوکیشن آفیسر منجل بدمیا نے کہا کہ ’اس بات کی جانچ کی جائے گی کہ آیا سکول نے یہ کام جان بوجھ کر کیا۔ اس معاملے میں سکول کے پرنسپل کو نوٹس بھیجا گیا ہے۔ ان سے وضاحت طلب کی جائے گی اور اگر کوئی قصوروار پایا گیا تو کارروائی کی جائے گی۔‘
مسلمان لڑکیوں کے اغوا اور ریپ کی دھمکی دینے والے شخص کی ویڈیو وائرل، گرفتاری کا مطالبہایک ہندو کے قبولِ اسلام کی وائرل ویڈیو جو درگاہ حضرت بل کے امام پر پابندی کا باعث بنی: ’اب میں درگاہ کا پانی کے راستے دیدار کرتا ہوں‘کالج کیمپس میں نماز پڑھنے کی ویڈیو وائرل ہونے پر مسلمان پروفیسر کو چھٹی پر بھیج دیا گیامیوات میں ہلاک ہونے والے امام مسجد کی وائرل ویڈیو: ’ہندو مسلم بیٹھ کے کھائیں تھالی میں، ایسا ہندوستان بنا دے‘وہ مسلمان خاندان جنھیں ہندوؤں کے دباؤ میں آ کر اپنا گھر بیچنا پڑاانڈین کرکٹ ٹیم کے مسلمان کھلاڑیوں کے تلک نہ لگوانے پر تنازع: ’مودی جی بھی تو جالی والی ٹوپی نہیں پہنتے‘