پاکستان اور چین کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش یا ’سکیورٹی گارنٹی‘: طالبان وزیر خارجہ کا پہلا دورہ انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟

بی بی سی اردو  |  Oct 05, 2025

Getty Imagesماہرین خطے کی صورتحال کے تناظر میں امیر متقی کے انڈیا کے دورے کو اہم قرار دے رہے ہیں

سفر پر عائد پابندیوں میں استثنیٰ ملنے کے بعد افغانستان میں عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی آئندہ ہفتے انڈیا کا دورہ کرنے والے ہیں۔ ماہرین علاقائی صورتحال کے تناظر میں اس دورے کو اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔

انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں متقی کو دیے گئے استثنیٰ کی تصدیق کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا طالبان رہنما انڈیا آئیں گے یا نہیں۔

لیکن طالبان وزارت خارجہکے ایک اہلکار نےبی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ متقی انڈیا کا دورہ کریں گے۔ تاہم انھوں نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے۔

افغان طالبان رہنماؤں پر سفریپابندیوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے استثنیٰ ملنے کے بعد ہی اس کے رہنما کسی دوسرے ملک کا سفر کر سکتے ہیں۔

یہ طالبان کے افغانستان پر اگست 2021 میں قابض ہونے کے بعد طالبان حکومت کے وزیر کا انڈیا کا پہلا باضابطہ دورہ ہو گا۔

انڈیا نے تاحال طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا، تاہم حالیہ عرصے میں اس کے طالبان حکومت کے ساتھ رابطوں میں تیزی آئی ہے۔

مئی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کے بعد انڈین وزیر خارجہ نے طالبان حکومت کے وزیر خارجہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ متقی کا دورہ انڈیا اور افغانستان دونوں کے لیے ایک اہم سفارتی لمحہ ہے کیونکہ یہ دہائیوں پرانی دشمنی کو ختم کرنے کی امید دیتا ہے۔

واضح رہے کہ انڈیا ماضی میں افغان طالبان کے مخالف گروپس کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ان میں وہ گروپس بھی شامل ہیں جو سنہ 2021 تک افغان حکومت کی قیادت کرتے رہے ہیں۔ جبکہ طالبان کو انڈیا کے حریف پاکستان کا آلہ کار سمجھا جاتا تھا۔

’افغان محاذ پر بہت کچھ ہو رہا ہے‘

متقی کا انڈیا کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل کے قریب بگرام ایئربیس کو واپس لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔

جندل یونیورسٹی میں افغان سٹیڈیز کے سربراہ پروفیسر راگھو شرما کہتے ہیں کہ اس وقت پر متقی کا آنا اہم اس لیے ہے کیونکہ چین کا افغانستان میں اثر و رسوخ بڑھرہا ہے اور روس نے بھی طالبان سے سفارتی روابط بڑھائے ہیں۔

اُن کے بقول انڈیا، افغان طالبان کی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قربتوں کے باعث ان کے ساتھ روابط میں احتیاط برتتا رہا ہے۔

شرما کہتے ہیں کہ ’متقی کا دورہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان محاذ پر بہت کچھ ہو رہا ہے۔ یہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جاری بہت آہستہ اور محتاط صف بندی اپنا اثر دکھا رہی ہے۔‘

کولکتہ کی عالیہ یونیورسٹی میں افغان-انڈیا تعلقات پر تحقیق کرنے والے محقق محمد ریاض کہتے ہیں کہ سنہ 2010 سے ہی یہ واضح ہو رہا تھا کہ افغان طالبان، افغانستان کے سیاسی منظر نامے پر دوبارہ اُبھر رہے ہیں۔

اُن کے بقول اُسی وقت دنیا کے مختلف ملکوں نے ان سے روابط شروع کر دیے تھے، لیکن انڈیا نے ان سے رابطوں میں تاخیر کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا نے طالبان سے دوری بنا رکھی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔‘

اگرچہ انڈیا نے طالبان کے کابل میں آنے کے بعد اپنے سفارتی عملے کو واپس بلا لیا اور براہ راست رابطے معطل کر دیے، لیکن جلد ہی اس نے حکمت عملی تبدیل کی۔

’دلی نے محسوس کیا ہے کہ طالبان سے مکملدوری ناقابلِ عمل ہے‘

دلی میں مقیم بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر اجے درشن بہیرا کہتے ہیں کہ ’انڈیا نے جلد ہی پس پردہ بات چیت شروع کی تاکہ طالبان سے اس بات کی یقین دہانی حاصل کی جا سکے کہ وہ اپنی سرزمین کو انڈیا مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘

اُن کے بقول دلی نے محسوس کیا کہ طالبان سے مکملدوریبرقرار رکھنے کی پالیسی ناقابل عمل ہے۔

پرفیسر بہیرا کہتے ہیں کہ طالبان حکومت کو تسلیم کیے بغیر امداد دینا، شراکت کے بغیر وہاں موجودگی انڈیا کی طالبان کے حوالے سے پالیسی میں توازن کو ظاہر کرتا ہے۔

جب فریقین کے درمیان کچھ اعتماد بحال ہوا تو مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق طالبان نے سنہ 2022 میں دلی میں اپنا ایک سفارت کار بھیجا۔ تاہم انڈیا نے ابھی انھیں افغان سفارت خانے کا چارج سنبھالنے کی اجازت نہیں دی۔

سنہ 2024 میں رپورٹس آئیں کہ طالبان کے ایک سفارتکار نے ممبئی قونصل خانے کا چارج سنبھال لیا ہے، لیکن دونوں ممالک نے اس پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔

سنہ 2022 میں انڈیا نے کابل میں محدود طور پر اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولا اور 2025 میں اس کے خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے دبئی میں متقی سے ملاقات کی۔ آخرکار مئی 2025 میں دونوں وزرائے خارجہ نے پہلگام حملے کے بعد فون پر بات کی۔

لیکن ایس جے شنکر اور متقی کی اس گفتگو کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے جاری کیے گئے بیانات نے ان کے قومی ترجیحات کی عکاسی کی۔

انڈیا نے قومی سلامتی پر بات کی کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ افغانستان دوبارہ انڈیا مخالف عسکریت پسند گروہوں کی پناہ گاہ نہ بنے، جبکہ افغانستان نے ویزا اور تجارت کا ذکر کیا کیونکہ ان کی کوشش ہے کہ وہ بین الاقوامی شناخت اور سرمایہ کاری حاصل کر سکیں۔

چین اور روس کی طالبان حکومت کے ساتھ قربت کے باوجود اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے طالبان کے رہنما بنا اجازت کے بین القوامی سفر نہیں کر سکتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے لیے عالمی سطح پر محدود مواقع ہیں۔

اس تناظر میں ماہرین کے مطابق متقی کے لیے انڈیا کا دورہ اہمیت رکھتا ہے۔

متقی کے متوقع دورے کے ایجنڈے کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن ماہرین توقع کرتے ہیں کہ یہ دونوں حکومتوں کی ترجیحات کی عکاسی کرے گا، جو ضروری نہیں کہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں۔

محمد ریاض کہتے ہیں کہ ’انڈیا کے افغانستان میں بہت سے مفادات ہیں، جنھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ خاص طور پر جبطالبان کے مخالف دھڑے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور انھیں عالمی طاقتوں کی بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔‘

اُن کے بقول انڈیا، افغانستان میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ قربتیں بڑھا رہا ہے اور اسی دوران وہ اپنے سابق افغان اتحادیوں کو دُور بھی کر رہا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر انڈیا کو تحفظات ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ طالبان کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔

کیا طالبان حکومت کی انڈیا سے بڑھتی قربت ’افغانستان میں پاکستان کو شکست‘ دینے کی کوشش ہے؟کیا پڑوسیوں سے خراب تعلقات انڈیا کو افغان طالبان کی طرف دھکیل رہے ہیں؟مودی کی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ: ’افغانستان میں جو امریکہ کے ساتھ ہوا وہی ڈھاکہ میں انڈیا کے ساتھ ہوا‘’کابل میں انڈیا کی دلچسپی سے پاک افغان تعلقات متاثر نہیں‘چین اور پاکستان کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش؟

ریاض کہتے ہیں کہ دلی کے افغان طالبان سے روابط علاقائی سلامتی سے بھی جڑے ہیں، جن میں پاکستان کے خفیہ اداروں کی جانب سے طالبان اور دیگر مسلح دھڑوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے جیسے خدشات بھی شامل ہیں۔

اُن کے بقول افغانستان میں چین کا اثرو رسوخ کم کرنے کے لیے انڈیا وہاں طویل مدتی سرمایہ کاری کے آپشنز پر بھی غور کر رہا ہے۔

پروفیسر بہیرا کہتے ہیں کہ انڈیا نے درمیانی راستہ اختیار کیا ہے، جو کہ رسمی طور پر طالبان کو تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ محدود مگر بامعنی روابط کو یقینی بناتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ طریقہ رابطے کی لائنیں کھلی رکھتا ہے اور افغانستان کو انڈیا مخالف دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ بننے سے روکتا ہے۔‘

متقی، جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ستمبر میں انڈیا کا دورہ کریں گے، اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان پر عائد سفری پابندیوں کی وجہ سے نہیں آ سکے تھے۔ لیکن 30 ستمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انھیں نو سے 16 اکتوبر کے درمیان دلی کے دورے کی اجازت دے دی۔

وہ اکتوبر کے آخر میں ماسکو فارمیٹ مذاکرات میں شرکت کرنے والے روسی نمائندوں سے بھی ملاقات کریں گے۔

پروفیسر شرما کا کہنا ہے کہ ’طالبان کے لیے یہ ایک موقعہے کہ وہ اپنے عوام کو یہ پیغام دیں کہ وہ پاکستان کے کٹھ پتلی نہیں ہیں، جیسا کہ ان پر طویل عرصے سے الزام لگایا جاتا رہا ہے۔‘

لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ انڈیا کی طالبان کے ساتھ قربتوں کے بظاہر منفی پہلو بھی ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے افغان شہریوں کے اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ پاکستان اور انڈیا دونوں افغانستان کو میدانِ جنگ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

پروفیسر شرما کہتے ہیں کہ ’چاہے یہ حقیقت ہے یا نہیں، تاثرات ایک ملک کی عوامی شبیہہ کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے زیادہ خوش آئند نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ متقی کا یہ دورہ بلاشبہ تعلقات کو آگے بڑھانے کی سمت میں ایک اہم قدم ہو گا۔

افغان طالبان کے اہم عسکری رہنما کی پہلگام حملے کے بعد انڈیا ’خفیہ‘ آمد: ابراہیم صدر کون ہیں؟دولت اسلامیہ، طالبان اور امریکی ہتھیار: کیا افغانستان پاکستان اور امریکہ کو دوبارہ قریب لا سکتا ہے؟’ہم نے جس ملک سے پناہ مانگی تھی، وہاں ہمارے لیے کوئی لچک نہیں‘: کیا پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے کوئی حقوق ہیں؟انڈیا میں افغان سفارتخانے کے دو دعویدار کیوں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More