بہاولپور اور خیرپور: دو ریاستیں جنھوں نے پاکستان کے وجود کو سہارا دیا

بی بی سی اردو  |  Oct 05, 2025

BBCبہاولپور کا تاریخی نور محل جو کہ اب انتظامیہ کے زیر استعمال ہے

تین اکتوبر1947 کو خیرپور اور بہاولپور نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تو گویا لاہور اور کراچی کا ریل اور سڑک کا رابطہ برقرار رہا کیوں کہ اس نوزائیدہ ملک کے مشرقی حصے کو جنوب سے ملاتی ریلوے لائن اور سڑک ان ہی دو شاہی ریاستوں سے گزرتی تھیں۔

سنہ 1947 میں ہندوستان کی برطانیہ سے آزادی سے نہ صرف انڈیا اور پاکستان نے جنم لیا بلکہ خیرپور اور بہاولپور سمیت وہ چھ سو کے قریب ریاستیں بھی خود مختار ہوگئیں، جو کل رقبے کا تہائی اور آبادی کا چوتھائی حصہ تھیں اور جن کی حیثیت توپوں کی سلامی کی تعداد سے طے ہوتی تھی۔

انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق سب سے بلند مرتبہ تاج برطانیہ کو (101 توپوں کی سلامی کے ساتھ ) حاصل تھا۔ زیادہ توپوں کی سلامی (زیادہ سے زیادہ 21) زیادہ وقار کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ بیشتر چھوٹی ریاستیں اس درجہ بندی سے باہر تھیں اور ان کے حکمراں سلامی کے حق دار نہ تھے۔

اینا بیل لائیڈ نے اپنی کتاب ’بہاولپور: دی کنگڈم دیٹ وینشڈ‘ میں لکھا ہے کہ آزادی کے وقت موجود ریاستوں میں ایک طرف حیدرآباد، کشمیر، میسور، گوالیار اور بروڈا ایسی بڑی ریاستیں تھیں جنھیں 21 توپوں کی سلامی ملتی تھی ۔ دوسری طرف محض ایک گاؤں جتنی چھوٹی ریاستیں بھی تھیں، جیسے گجرات کی ویجانونس، جس کا رقبہ صرف 0.76 مربع کلومیٹر تھا اور آبادی 206 تھی۔

ہندوستان کی تقسیم کے بعد ریاستوں کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘ (الحاق کی دستاویز) پر دستخط کر کے انڈیا یا پاکستان میں شامل ہو جائیں یا آزاد رہیں۔

جدید جنوبی ایشیا کے مؤرخ ڈاکٹر یعقوب خان بنگش اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’کانگریس چاہتی تھی کہ کوئی ریاست آزاد نہ رہے، کیونکہ اس کے نزدیک یہ ہندوستان کی تقسیم در تقسیم کا باعث بنتا۔ کانگریس کی الحاق کی پیش کش کو کئی چھوٹی ریاستوں نے قبول کر لیا، بڑی ریاستوں کو دباؤ اور فوجی کارروائی کے ذریعے آمادہ کیا گیا۔‘

’مسلم لیگ، محمد علی جناح کی قیادت میں، ریاستوں کی آزاد قانونی حیثیت تسلیم کرتی تھی۔ لیکن پاکستان پر بھی جلد ہی واضح ہوگیا کہ ریاستوں کی شمولیت ناگزیر ہے۔‘

’اگر خیرپور اور بہاولپور شامل نہ ہوتے تو لاہور اور کراچی کا رابطہ ٹوٹ جاتا، اگر قلات شامل نہ ہوتا تو بلوچستان کا بیشتر حصہ پاکستان سے باہر رہتا، اور اگر سرحدی ریاستیں اور گلگت الگ رہتے تو چین سے زمینی تعلق ممکن نہ رہتا۔‘

خیرپور15 توپوں اور بہاولپور 17 توپوں کی سلامی والی ریاست تھی۔

خیرپور کا الحاق اور انضمام

ریاست خیرپور کا پاکستان سے الحاق تین اکتوبر 1947 کو ہوا۔

آسٹریلوی مصنف جان زُبرزیکی نے سابق شاہی ریاستوں سے متعلق اپنی کتاب ’ڈی تھرونڈ‘ میں لکھا ہے کہ یہ مرحلہ نسبتاً آسان رہا ۔

’جیسلمیر سے ملحقہ ریاست خیرپور کو 1843 میں سندھ کے برطانوی الحاق کے بعد بھی اپنی سیاسی حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ ریاست کے حکمران میر علی نواز خان کی 1935 میں موٹاپے سے موت کے بعد ان کے بیٹے فیض محمد خان نہایت کمزور حکمران ثابت ہوئے۔ ریاست میں غربت اور ناخواندگی عام تھی۔‘

’برسوں کی بدانتظامی کے بعد خیرپور کی توپوں کی سلامی کی حیثیت 19سے 15 پر آ گئی تھی۔‘

زبرزیکی کے مطابق سنہ 1944 میں فیض محمد کو ’شیزوفرینیا‘ کا مریض قرار دے کر ان کے اختیارات محدود کر دیے گئے۔ 20 جولائی 1947 کو انھیں باضابطہ معزول کر کے پونا بھیج دیا گیا اورریاست کا انتظام چلانے کے لیے ان کے نابالغ بیٹے جارج علی مراد خان کے لیے ایک ریجنسی کونسل قائم کر دی گئی۔

’خیرپور پر انڈیا سے الحاق کا کوئی دباؤ نہ تھا اور پاکستان کی طرف سے بھی فوری تقاضا نہیں تھا۔ لیکن پھر (پاکستان کی حکومت سے مذاکرات کے بعد)، 3 اکتوبر 1947 کو ریاست کے وزیرِاعلیٰ غلام حسین خان تالپور نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے، جب کہ نوجوان شہزادے جارج کشمیر کی سیر پر تھے۔‘

انگریزی اخبار ڈان کے مطابق اس سے پہلے چار اگست 1947 کو خیرپور حکومت نے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا کہ 15 اگست 1947 کو خیرپور کا یومِ آزادی منایا جائے گا۔ لیکن پاکستان سے الحاق کا فیصلہ ہو گیا تو دستاویز پرمیر آف خیرپور کی جانب سے وزیرِاعلیٰ غلام حسین خان تالپور نے 3 اکتوبر1947 کو پاکستان کے بانی اور گورنرجنرل محمد علی جناح نے 9 اکتوبر 1947 کو دستخط کیے۔

خیرپور کا رقبہ 15,700 مربع کلومیٹر تھا اور آبادی تقریباً تین لاکھ تھی۔

شاہی تالپور اور سندھ کا ورثہ کے عنوان سے سنہ 1997 میں لکھے جانے والے ایک مضمون میں مراد المشتاق احمد کہ کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے خیرپور ناگزیر تھا۔

سندھ کی تاریخ، ورثے، فنون اور ثقافت کے لیے وقف ویب سائٹ پر موجود مراد المشتاق احمد کے اس مضمون میں اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ریاست کی سرحد انڈیا سے ملتی تھی؛ دریائے سندھ کے کنارے واقع یہ ریاست اگر انڈیا سے الحاق کر لیتی تو وہ آسانی سے سکھر بیراج کو غیر مؤثر بنا سکتا تھا (خیرپور کی سرحد بیراج کے دروازوں سے محض 40 گز کے فاصلے پر ہے)؛ جنوبی سندھ کو سیراب کرتی نارا اور روہڑی نہریں خیرپور سے گزرتی ہیں؛ اور اُس وقت کے دارالحکومت (کراچی) کو شمالی فوجی اڈے سے ملاتی ریلوے اور گرینڈ ٹرنک روڈ خیرپور سے گزرتی تھیں۔‘

لاہور-کراچی ریلوے لائن کا ایک بڑا حصہ ریاست کی حدود میں آتا تھا، جس سے یہ علاقہ نو تشکیل شدہ پاکستان کے لیے نہایت اہمیت اختیار کر گیا تھا۔

راجرڈی لانگ ، گَرہَرپال سنگھ ، یونس صمد اور ایان ٹیلبوٹ کی کتاب ’سٹیٹ اینڈ نیشن بلڈنگ ان پاکستان‘ کے مطابق یکم فروری 1949 کو ایک اضافی معاہدے کے نتیجے میں علی مراد خان اور دربار کے مؤثر اختیارات میں نمایاں کمی کر دی گئی۔ اس کے تحت فوج کا کنٹرول پاکستان کو دے دیا گیا اور یہ بھی طے پایا کہ ریاست کے وزیرِاعلیٰ کا تقرر قومی حکومت سے مشاورت کے بعد ہو گا۔

’خیرپور گورنمنٹ ایکٹ 1949 کے ذریعے نیم جمہوری اصلاحات متعارف کروائی گئیں اور مقامی نمائندوں پر مشتمل 15 رکنی قانون ساز اسمبلی قائم کی گئی۔ یوں خیرپور پاکستان کی ابتدائی دو ریاستوں (دوسری ریاست بہاولپور تھی) میں شامل ہوا جہاں بالغ رائے دہی کا نظام رائج کیا گیا۔ تاہم وزیرِاعلیٰ کو اسمبلی کی کارروائیوں پر ویٹو کا اختیار حاصل تھا اور وہ اسمبلی کی منظوری کے بغیر بھی قوانین نافذ کر سکتا تھا۔‘

سنہ 1951میں پاکستان کے وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے 18 سالہ علی مراد خان کو حکمرانی کے اختیارات سونپ دیے اور ریجنسی کونسل کو تحلیل کر دیا۔ دو سال بعد خیرپور کو صوبے میں تبدیل کرتے ہوئے مزید اختیارات مرکز کی جانب سے مقرر کردہ وزیرِاعلیٰ کے ہاتھ میں دے دیے گئے۔

’بہاولپور ون یونٹ سے قبل تین برس تک پاکستان کا صوبہ تھا‘چولستان کا وہ قلعہ جو آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گابہاولپور کا نور محل: محبت کی یادگار یا مہمان خانہلال سہانڑہ پارک: کالے ہرن اور راج ہنس کا مسکن

کتاب ’سٹیٹ اینڈ نیشن بلڈنگ ان پاکستان‘ کے مطابق پچیس مئی 1954 کو اسمبلی نے سندھ کے ساتھ انضمام کی تجاویز مسترد کر دیں۔ مگر بالآخر جب انضمام ناگزیر سمجھا جانے لگا تو 10 نومبر 1954 کو اسمبلی نے پاکستان کے ساتھ انضمام کی قرارداد منظور کی۔ دس دن بعد خان نے پاکستان کے ساتھ انضمام کے معاہدے پر دستخط کر دیے، یوں ان کی خودمختار حکمران کی حیثیت ختم ہو گئی۔

بنگش لکھتے ہیں کہ 1955 تک، یعنی ’ون یونٹ‘ میں انضمام سے عین قبل، خیرپور ایک طاقتور ریاست کے طور پر ابھری اور پاکستان کی پہلی دہائی میں ایک ترقی پذیر ’فلاحی ریاست‘ کی بہترین مثال بن گئی۔

علی مراد خان پچھلے جون 92 سال کے ہوئے۔ برصغیر کی کسی بھی سابق شاہی ریاست کے وہ واحد سربراہ ہیں جو زندہ ہیں۔

ان کی پہلی بیوی ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان پنجم کی بیٹی تھیں۔ ان کی شادی بہاولپور کے صادق گڑھ محل میں ہوئی۔

بہاولپور کا الحاق اور انضمام

زُبرزیکی نے لکھا ہے کہ ’سنہ 1833 میں برطانوی عمل داری کے تحت ریاستوں کی صف میں شامل ہونے والی ریاست بہاولپور کے 1947 میں حکمران نواب صادق محمد خان پنجم تھے۔‘

’آزادی قریب آتے ہی بہاولپور کا پاکستان سے الحاق تقریباً یقینی دکھائی دیتا تھا کیونکہ اس کی جغرافیائی اور آبادیاتی صورتِ حال یہی تقاضا کرتی تھی۔‘

اپریل 1947 میں ریاست کے ریونیو منسٹر یا وزیرمالیات بننے والے پینڈرَل مون کے مطابق، ’ریاست کے عوام کسی اور امکان سے واقف ہی نہیں تھے۔‘

اپنی کتاب ’ڈیوائیڈ اینڈ کُوِٹ‘ میں مون لکھتے ہیں: میں نے یہ سمجھا تھا کہ بہاولپور خاموشی سے پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔ لاہور میں مسلم لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ ہماری بات چیت اور پاکستان کے وکیل ظفراللہ کو بھی یہ ذمہ داری سونپنا کہ وہ ہماری نمائندگی باؤنڈری کمیشن کے سامنے کریں، اس امر کا واضح عندیہ تھا کہ ہماری یہی نیت ہے۔

’لیکن جب (اپریل 1947 ہی میں ریاست کے وزیر اعظم مشتاق احمد) گُرمانی نے مجھے بتایا کہ نواب کو بعض حلقوں سے یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ انڈیا کے ساتھ الحاق کریں، تو میں حیران اور پریشان رہ گیا۔ خود گُرمانی بھی اُسی قدر ششدر اور مضطرب دکھائی دیے۔

مون کے مطابق ’چونکہ بہاولپور ایک مسلم ریاست تھی جس کا حکمران بھی مسلمان تھا اور یہ ریاست کراچی اور لاہور کے درمیان ریلوے اور سڑکوں کی گزرگاہ پر عین واقع تھی، لہٰذا اس کا انڈیا کے ساتھ الحاق پاکستان کے لیے ایک تباہ کن دھچکا ہوتا اور یقیناً مسلمانوں کے شدید ردعمل کو جنم دیتا۔‘

’بہرحال ایک دو دن بعد انڈیا سے الحاق کی تمام باتیں ختم ہو گئیں اور نواب نے فیصلہ کر لیا کہ بہاولپور بالآخر پاکستان کے ساتھ شامل ہو گا۔‘

حامد رضا وٹو کی اس موضوع پر تحقیقی کتاب ’بہاول گڑھ سے بہاولپور تک‘ زیرِطبع ہے۔

وٹو نے اسلام آباد سے بی بی سی کو بتایا کہ ’بانیان پاکستان کے لیے بہاولپور کا پاکستان سے الحاق انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ مغربی پاکستان سے متصل 10 ریاستوں میں آبادی اور وسائل کے لحاظ سے سب سے بڑی اس ریاست کی 17سے 18لاکھ آبادی کا 83 فیصد مسلمان تھے۔ یہاں کے1 لاکھ 90 ہزار ہندوؤں اور50 ہزار سکھوں کی غالب اکثریت قیام پاکستان سے قبل ہی انڈیا جا چکی تھی۔‘

وٹو پاکستان کے سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی کی کتاب ’دی ایمرجنس آف پاکستان‘ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ریاست بہاولپور کی خوش حالی کا تمام تر دارومدار ستلج ویلی پراجیکٹ پر تھا جو در اصل مغربی پنجاب کے نظام انہار کی توسیع تھی۔ یوں مغربی پاکستان اور بہاولپور کے معاشی مفادات ایک دوسرے سے بہت مربوط تھے۔

’اسی طرح نارتھ ویسٹرن ریلوے جس سے شمال مغربی سرحدی صوبہ اور مغربی پنجاب کراچی سے منسلک تھے، کا ایک طویل حصہ ریاست بہاولپور میں سے گذرتا تھا۔ چودھری محمد علی کے مطابق ریاست بہاولپور اپنے تحفظ و دفاع اور داخلی یا خارجی خطرات کی صورت میں لامحالہ طور پر پاکستان ہی سے رجوع کرتی اس لیے لازمی تھا کہ بہاولپور کا پاکستان ہی سے الحاق ہوتا۔‘

وٹو کہتے ہیں کہ بعض مبصرین کے مطابق نواب نے قیام پاکستان سے قبل ہی پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر لیا تھا۔

’سید ہاشم رضا فروری 1956 میں بہاولپور میں کمشنر بنے اور اپنے20 ماہ طویل عرصہ تعیناتی میں نواب سے ملتے رہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’ہماری منزل‘ میں مادر ملت فاطمہ جناح کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ قائد اعظم نواب کو اپنا ’ذاتی دوست' سمجھتے تھے۔ انھوں نے 14اگست1947 سے کافی عرصہ قبل ہی پاکستان سے الحاق کے اپنے فیصلہ سے قائد اعظم کو آگاہ کردیا تھا۔‘

وٹو کہتے ہیں کہ مؤرخین کے مطابق بعض واقعات سے ظاہر ہوتا تھا کہ نواب عمومی اور عوامی توقعات کے برعکس پاکستان سے فوری اور غیر مشروط الحاق پر آمادہ نہیں تھے اور اُن کی کوشش تھی کہ پاکستان کے ساتھ ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہو جس کے تحت انھیں وہ تمام شخصی اقتدار اور اختیارات حاصل رہیں جو انھیں تاج برطانیہ کے تحت حاصل تھے۔

البتہ ڈان اخبار کے مطابق 15 اگست 1947 کو نواب نے خود کو امیر (خودمختار حکمران) قرار دیا اور پاکستان کے ساتھ ایک ’اطمینان بخش آئینی بندوبست‘ طے کرنے پر آمادگی کا اعلان کیا۔ حکومتِ پاکستان نے ریاست کے الحاق کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے۔ تاہم، جب نواب نے برطانیہ واپس جانے کا فیصلہ کیا تو مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔

’اگرچہ افواہیں تھیں کہ گرمانی بہاولپور کا الحاق انڈیا کے ساتھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن انھوں نے الحاق کی مخالفت نہیں کی، صرف ایک رکاوٹ امیر کے دستخط تھے، جو انھوں نے کر دیے۔‘

وٹو کے مطابق قیام پاکستان کے 50ویں دن 3 اکتوبر1947 کو والی بہاولپور نے پاکستان سے الحاق کی دستاویز پردستخط کیے جس کی گورنر جنرل محمد علی جناح نے5 اکتوبر1947 کو توثیق کی۔

ریاست بہاولپور کی پاکستان کے لیے مبینہ خدمات اور امداد

وٹو کے مطابق بعض روایات تحقیق و تنقید کی کسوٹی پر پرکھے بغیر ہی تاریخ کا حصہ بنا دی گئی ہیں جیسے کہ 1947میں ریاستِ بہاولپور نے پاکستان کو کروڑوں روپے دیے اور تقسیم سے پہلے کے برسوں میں اس کے بجٹ ہمیشہ سرپلس رہا کرتے تھے۔

’نواب صادق محمد خان کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی کی پاکستان کے قیام سے لگ بھگ تین سے چار دہائیوں بعد کی تحریروں سے ایک بیانیہ بھی تشکیل پا گیا ہے کہ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو نواب نے نہ صرف الحاق میں تاخیر نہیں کی بلکہ دل کھول کر مالی امداد بھی فراہم کی۔

’اسی امداد کے ذریعے پاکستان کے سرکاری ملازمین کی ابتدائی تنخواہیں ادا ہو سکیں اور نئی مملکت اپنے آغاز ہی میں درپیش شدید مالی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہوئی۔ انھوں نے یہ دعوے اپنی کتب ’بغداد سے بہاولپور‘ اور ’بہاولپور کا صادق دوست‘ میں تفصیل سے پیش کیے ہیں۔‘

کتاب ’بغداد سے بہاولپور‘ میں انھوں نے لکھا کہ ان کے ’نانا سر صادق محمد عباسی کا قائد اعظم محمد علی جناح سے قریبی تعلق اور دوستی کا آغاز 1920کی دہائی میں ستلج ویلی پراجیکٹ کے اجرا کے دنوں میں ہوا جب اس کے لیے حکومت ہند سے قرضہ کی درخواست کی گئی اور قرضہ کی شرائط طے کرانے کے لیے ماہر قانون دان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کو مقرر کیا گیا۔‘

عباسی نے لکھا ہے کہ تین اکتوبر1947 کو پاکستان اور بہاولپور کے الحاق کا ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا۔ بہاولپور نے اس وقت پاکستان کے خالی خزانہ میں سات کروڑ روپے نقد دیے اور کروڑوں روپے کا سامان سپیشل ٹرین کے ذریعے حکومت پاکستان کے حوالے کیا۔

وٹو کے مطابق عباسی کے ان دعوؤں کی بازگشت ان کی ایک اور کتاب ’بہاولپور کا صادق دوست‘ میں بھی سنائی دیتی ہے۔

’سنہ 1949میں جب ریاست بہاولپور کی فورسز کو پاکستانی افواج میں شامل کیا گیا تو انھوں نے اس کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو پھر ایک کروڑ پچیس لاکھ روپے کی امداد بھی دی۔ یہاں تک کہ ایک بار قائد اعظم محمد علی جناح نے لاہور ہائیکورٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں تو قلم کی سیاہی تک کے لیے بھی ریاست بہاولپور نے امداد دی ہے۔‘

’بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح 1947سے کچھ عرصہ قبل ملیر کے عظیم الشان محل ’الشمس‘ میں ایک ماہ تک مقیم رہے۔ اور یہ محل ایک ماہ تک قیام پاکستان کی جدو جہد کا مرکز بنا رہا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم نے کئی بار اعلیٰ امیر بہاولپور سے ملاقاتیں کیں اور قائد اعظم ہمیشہ اعلیٰ حضرت کی فراست کی تعریف کرتے رہے۔‘

’دوسری عالمی جنگ کے بعد شکست خوردہ ممالک سے ملے معاوضہ میں نواب سر صادق محمد عباسی کو 52 ہزار پونڈ (جو اس وقت 52 لاکھ روپے تھے) کا چیک موصول ہوا جو انھوں نے لندن میں قائد اعظم محمد علی جناح کے حوالے کر دیا تاکہ قیام پاکستان کے لیے انھیں کسی ابتدائی مالی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پاکستان کرنسی کی ضمانت بھی اس وقت نواب نے دی تھی۔ اور پاکستان کے وجود میں آنے کے پہلے ماہ ملک کے تمام سرکاری اداروں کی تنخواہیں بھی نواب بہاولپور نے دی تھیں۔‘

’بارہ اگست1947 کو قائد اعظم جب کراچی تشریف لائے تو نواب بہاولپور کی رہائش گاہ القمر پیلس ملیر کراچی کے گیٹ پر بہاولپور کی فسٹ انفنٹری نے شاہی سلامی اور گارڈ آف آنر پیش کیا۔ اس طرح بانی پاکستان کو سب سے پہلے شاہی سلامی اور گارڈ آف آنر کا شرف بھی ریاست بہاولپور کو حاصل ہے۔‘

نواب صلاح الدین عباسی بھی اپنے دادا اور بانی پاکستان کے درمیان دیرینہ قریبی تعلقات اور مملکت پاکستان کے لیے اپنے دادا اور ریاست بہاولپور کی قربانیوں کا دعویٰ کرتے ہیں۔

مارچ 2013 میں ایک نجی نیوز چینل کے ساتھ تفصیلی انٹرویو میں نواب صلاح الدین کا کہنا تھا کہ بہاولپور کے بغیر پاکستان کا وجود ناممکن تھا۔

وٹو کے مطابق اس انٹرویو میں نواب صلاح الدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ریاست بہاولپور پاکستان کے ساتھ انضمام سے قبل تعلیمی میدان میں بہت آگے تھی۔ ان کے الفاظ کے مطابق ’1954 میں پاکستان کے ساتھ معاہدہ ادغام کے وقت ریاست بہاولپور کی شرح خواندگی آج کے پاکستان کی شرح خواندگی سے زیادہ تھی۔‘

اپنی کتاب میں نواب صلاح الدین کے ساتھ اپنے طویل انٹرویوز کو بنیاد بنا کر اینابیل لائیڈ لکھتی ہیں کہ نواب صادق محمد ہی نے ابتدائی طور پرنئے ملک پاکستان کے خالی خزانہ میں رقم بھری جبکہ پاکستانی روپے کو استحکام دینے کے لیے بہاولپور کے انگلینڈ میں پہلے سے محفوظ پڑے ریاست بہاولپور کے سونے کے ذخائر استعمال کیے گئے۔

’حکومت پاکستان کے ملازمین کی پہلے چھ ماہ کی تنخواہیں بھی بہاولپور کے خزانہ سے ادا کی گئیں۔ علاوہ ازیں ہندوستان سے آئے مسلمان مہاجرین کی آبادکاری کے لیے وزیر اعظم مشتاق احمد گرمانی نے امیر بہاولپور کی جانب سے قائد اعظم فنڈ میں پانچ لاکھ روپے جمع کرائے جس کے لیے اڑھائی اڑھائی لاکھ روپے کے دو چیک بھجوائے گئے۔‘

وٹو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے زیر اہتمام ایسوسی ایٹ ڈپلومہ اور بیچلرز کلاسوں میں مطالعہ پاکستان اور تاریخ کے مضامین کے نصاب میں شامل درسی کتب کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ جن میں لکھا ہے کہ نواب کی جانب سے پاکستان کے ’ملازمین کے لیے 2 ماہ کی تنخواہ کے لیے تقریباً 10 کروڑ روپے نقد اور 7 کروڑ روپے دفتری اخراجات کے لیے پاکستان کے خزانہ میں جمع کرائے گئے۔‘

’پاکستان کی مالی حالت مستحکم کرنے کے لیے 2 من سونا اور غیر ملکی مہمانوں کے کھانے کے لیے سونے کے بنے شاہی برتن خصوصی ٹرین کے ذریعے قائد اعظم کی خدمت میں بھجوائے۔ پاکستان کے دفاع کے لیے اپنی پوری فوج اسلحہ سمیت پاکستان کی فوج میں ضم کروا دی۔ پاکستان میں نئے مہاجرین کے لیے 22 ہزار ٹن گندم اور 5 لاکھ روپے نقد بھی دیے۔‘

وٹو نے بتایا کہ قائد اعظم پیپرز سے پتا چلتا ہے کہ نواب سر صادق محمد خان عباسی نے 1942کے اواخر میں قائداعظم کو ریاست بہاولپور کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ لیکن دستیاب حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم کی مصروفیات ان کے ریاست بہاولپور کا دورہ کرنے میں آڑے آئیں۔ بعد کے سالوں میں ان کا نواب سے خطوط کا سلسلہ جاری رہا اور دونوں کی ملاقاتیں بھی ہوئیں جو زیادہ تر نواب صادق محمد خان کی ملیر کراچی میں واقع رہائش گاہ پر ہوئیں۔

وٹو بتاتے ہیں کہ جناح کے سوانح نگار ہیکٹر بولایتھو کی کتاب کے مطابق جناح دسمبر1946 میں لندن میں برطانوی حکومت سے کیبنٹ مشن کے حوالے سے مذاکرات کے بعد وطن واپسی پر انھوں نے آرام کے لیے نواب کی ملیر میں واقع رہائش گاہ میں قیام کیا جہاں ڈاکٹروں نے انھیں آرام کی خاطرریڈیو پر خبریں سننے تک سے منع کر رکھا تھا۔

’قائد اعظم پیپرز کا مطالعہ کریں تو نواب کی جانب سے قائد اعظم کو 26 جون کو ارسال کردہ ایک ٹیلی گرام سے ظاہر ہوتا ہے کہ قائد اعظم نے نواب بہاولپور سے ملیر کی زمین کے حوالے سے کچھ تفصیلات مانگی تھیں جو قائد اعظم پیپرز کے مطابق غالباً ملیر میں حکومت پاکستان کے مرکزی دفاتر کے قیام کے بارے میں تھیں۔ پیپرز میں نواب بہاولپور کی جانب سے قائد کو 14 جولائی کو بھجوایا گیا ایک ٹیلی گرام بھی شامل ہے۔ بظاہر یہ تہنیتی ٹیلی گرام تھا جس میں بانی پاکستان کو گورنر جنرل کا عہدہ قبول کرنے پر مبارک باد دی گئی۔‘

وٹو بتاتے ہیں کہ مورخ غلام واحد چودھری کے مطابق پاکستان کو متحدہ ہندوستان کے غیر منقسم نقد مالی اثاثوں میں سے70کروڑ رقم ہی مل سکی تھی۔

’مالی مشکلات بالخصوص انڈیا کی جانب سے پاکستان کے حصہ کی نقد رقم روکے جانے کے باعث ملازمین کی تنخواہوں کا مرحلہ درپیش آیا تو سید ہاشم رضا کے مطابق اس مشکل کا حل بھی مرکزی حکومت نے سندھ حکومت سے قرض لے کر کیا۔

’اس حوالے سے ان کے الفاظ ہیں کہ ’انڈیا تقسیم (ہند) کے معاہدہ کی مالی شقوں پر عمل درآمد سے مکر گیا جن میں55 کروڑ روپے کی نقد رقوم کی منتقلی شامل تھی۔ ان حالات میں حکومت پاکستان کے پاس اپنے روز مرہ کے اخراجات اور ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے حکومت سندھ سے قرض حاصل کرنا پر مجبور ہونا پڑا۔‘

ٹائم میگزین نے 28 مارچ 1949کی اشاعت میں لکھا ہے کہ اس ماہ امیرِ بہاولپور نے اپنی 25 سالہ حکمرانی کی یاد میں پُرتعیش سلور جوبلی منائی۔ صبح سویرے 19 توپوں کی سلامی دی گئی (آزادی کے بعد امیر نے برطانوی دور کی 17 توپوں میں دو کا اضافہ کر لیا تھا) اور جشن کا آغاز ہوگیا۔

’شہر کی گلیوں میں ہاتھیوں، اونٹوں، جیپوں اور ایمبولینسوں کی لمبی پریڈ نکالی گئی۔ امیر خود رولز رائس میں سوار تھے۔‘

’گلزار محل میں امیر چاندی کے تخت پر بیٹھے تھے، دو شوخ وردیوں میں ملبوس خدام پنکھ جھل رہے تھے اور سرخ لباس پہنے ایک حبشی مسخرہ قریب کھڑا تھا۔ امیر سبز رنگ کی چمک دمک سے ڈھکے ہوئے تھے۔ ان کے سر پر سونے اور پلاٹینم کا تاج تھا جس پر 30 لاکھ ڈالر مالیت کے زمرد جڑے تھے۔ زمرد ان کی چاندی کے کام والی لمبی مسلم شیروانی اور تلوار کے پٹکے میں بھی جگمگا رہے تھے۔ صرف ان کے جوتے برطانوی ساختہ کالے آکسفورڈ، سادہ تھے۔ رعایا کے افراد ایک ایک کر کے جھکتے اور امیر کے قدموں میں سونے کے سکے (ہر ایک کی مالیت 7 ڈالر) نچھاور کرتے۔‘

’پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے امیر کو مبارکباد کے تار بھیجے اور انھیں پاکستان کی فوج میں اعلیٰ عہدے پر ترقی دی۔ جشن کے اختتام پر انھوں نے ریاست کی تاریخ میں پہلی عوامی اصلاحات کا اعلان کیا: 25 رکنی ریاستی اسمبلی۔ امیر نو ارکان خود منتخب کرتے، جبکہ 16 ارکان ایک پیچیدہ بالواسطہ انتخابی نظام کے ذریعے منتخب کیے جاتے۔‘

وٹو اپنی کتاب سے ریاست بہاولپور کے تب وزیر ا علیٰ مخدوم زادہ سید حسن محمودکے بجٹ دستاویزات میں بتائے گئے اعدادوشمار کے حوالے سے کہتے ہیں کہ1951 اور اس سے اگلے سال ریاست بہاولپور کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اپنے مالی سال 1953-54 کے بجٹ کے لیے حکومت پاکستان سے قرض لینا پڑا۔

وٹو استدلال کرتے ہیں کہ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں نوازائیدہ مملکت کی اپنی انتظامی ضروریات اور مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے قائد اعظم کی اپیل پر جہاں کہیں سے امداد آئی اس کا سرکاری طور پر اعتراف کیا گیا۔ قائد اعظم نے شکریے کے خطوط لکھے اور قائد اعظم پیپرز میں بھی اس حوالے سے تمام تر تفصیلات درج ہیں۔

وٹو کہتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ نواب کی جانب سے پاکستان سے الحاق سے چند ماہ قبل قائد اعظم ریلیف فنڈ میں اڑھائی اڑھائی لاکھ کے دو چیکوں پر مبنی پانچ لاکھ روپے کا عطیہ بھجوایا گیا تو اس کا باقاعدہ سرکاری اعلان ہوا، تمام قومی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی اور قائد اعظم نے شکریے کا خط بھجوایا تاہم نواب صاحب کی جانب سے مذکورہ کروڑوں روپے پاکستان یا قائد اعظم کو دیے جانے یا پاکستان کے وفاقی ملازمین کو ریاست کی جانب سے تنخواہیں ادا کیے جانے کا کہیں کسی سرکاری دستاویز، اخبارات یا یادداشتوں میں ذکر نہیں ہے۔

وٹو کے مطابق قیام پاکستان کے وقت تین شخصیات ایسی تھیں جو نواب کے قریب تھیں اور ریاست کے انتظامی امور اور لین دین کی نگران تھیں ان میں ریاست بہاولپور کے وزیر مالیات سر پینڈرل مون، نواب کے وزیر ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر سید نذیر علی شاہ عسکری اور نواب کے وزیر جی حضوری کرنل سعید احمد ہاشمی نمایاں تھے۔ان تینوں اصحاب نے قیام پاکستان کے بعد اپنی یادداشتوں پر مبنی کتب بھی تحریر کیں لیکن ان میں سے کسی کتاب میں ریاست بہاولپور کی جانب سے پاکستان یا قائد اعظم کو کروڑوں روپے دیے جانے کا ذکر نہیں ملتا۔

پینڈرل مُون نے اپنی کتاب میں ریاست بہاولپور کی جانب سے حکومت پاکستان کی صرف ایک ہی مالی مدد کا ذکر کیا ہے جو اڑھائی اڑھائی لاکھ روپے کے دو چیکوں کی صورت میں مہاجرین کی بحالی کے لیے حکومت پنجاب کو فراہم کی گئی۔

وٹو کے مطابق سید ہاشم رضا جو قیام پاکستان کے وقت کراچی کے منتظم تھے اور جنھوں نے چند سال بعد بہاولپور میں خدمات سرانجام دیں، اپنی کتاب میں نواب بہاولپور کی کئی خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن وہ بھی نواب یا ریاست بہاولپور کی جانب سے قائد اعظم یا مملکت پاکستان کو بھجوائی گئی کروڑوں روپے کی کسی امداد کا ذکر نہیں کرتے بلکہ انھوں نے اپنی کتاب ’ہماری منزل‘ میں واضح لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کے ملازمین کو پہلے ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ تھا اور یہ تنخواہیں انھیں حکومت سندھ کی جانب سے ادا کی گئیں۔

سابق شاہی ریاستوں کے سربراہوں یا ان کے خاندان کو پریوی پرس کے نام سے وظیفہ ہر سال ملتا تھا۔ انڈیا نے اسے 1971 میں ختم کردیا تھا۔ لیکن پاکستان میں بجٹ دستاویزات دیکھیں تو اسے کبھی کم اور کبھی زیادہ کر دیا گیا۔

تازہ ترین بجٹ میں بہاولپور کے امیر کے لیے مختص رقم ایک کروڑ بیس لاکھ سالانہ ہے۔

’بہاولپور ون یونٹ سے قبل تین برس تک پاکستان کا صوبہ تھا‘لال سہانڑہ پارک: کالے ہرن اور راج ہنس کا مسکنبہاولپور کا نور محل: محبت کی یادگار یا مہمان خانہچولستان کا وہ قلعہ جو آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گاکراچی: تالپوروں سے تین حملوں میں فتح نہ ہونے والا شہر جسے انگریزوں نے تین گھنٹے میں فتح کر لیامیانی: وہ میدان جہاں انگریزوں نے تالپور خاندان کو شکست دے کر سندھ فتح کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More