90 سالہ فیاض علی خان انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں اودھ کے نواب محمد علی شاہ کی تعمیر کردہ عمارت میں پہنچے ہیں۔
سفید کرتے پاجامے میں ملبوس فیاض علی خان کو چلنے میں دشواری ہے، ان کے ہاتھ کانپ رہے ہیں لیکن ان کی آنکھیں روشن ہیں۔ وہ نو روپے ستر پیسے کا اپنا وثیقہ یعنی اپنی پینشن لینے آئے ہیں۔
وثیقہ کا مطلب وراثت کا تحریری دستاویز ہے جس کی رو سے اودھ کے نوابوں سے وابستہ افراد کو پنشن ملا کرتی ہے۔
یہ لفظ عربی زبان سے ماخوذ ہے اور فارسی کے ذریعہ ہندوستان میں اس کا ورود ہوا ہے۔ یہ روایت نوابوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان ایک معاہدے سے شروع ہوئی۔
درحقیقت، اودھ کے نواب سنہ 1803 کے بعد ہندوستان پر عملی طور پر حکومت کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس وقتاً فوقتاً رقم جمع کرتے یا انھیں قرض دیتے، اس شرط کے ساتھ کہ اس رقم پر حاصل ہونے والا سود ان کے اہل خانہ اور ان سے وابستہ افراد کو پنشن کی صورت میں دیا جائے گا۔
سنہ 1857کی جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی 1874 میں بند ہوگئی۔ سات دہائیوں بعد 1947 میں ہندوستان کو آزادی ملی۔ انگریز چلے گئے لیکن یہ روایت برقرار ہے۔
تاہم، کیرالہ اور راجستھان سمیت ملک کے دیگر حصوں میں، سابقہ شاہی ریاستوں سے وابستہ خاندانوں کو اس قسم کی پنشن ملتی رہی ہے۔
وثیقہ کی روایت اور اس کے ابتدائی سال
فیاض علی خان کا تعلق شاہی خاندان سے ہے۔ وہ 13 ماہ بعد اپنا وثیقہ لینے آئے ہیں، اور انھیں 130 روپے ملے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'ہمیں یہ وثیقہ ہمارے دادا اور پردادا کے زمانے سے ملتی رہی ہے۔ یہ اتنی کم ہے کہ میں اسے لینے کے لیے سال میں صرف ایک بار آتا ہوں۔'
عمر کی وجہ سے فیاض اب اکیلے آنے کے قابل نہیں رہے اس لیے ان کے بیٹے شکوہ آزاد بھی ان کے ہمراہ ہیں۔
شکوہ کہتے ہیں: 'افسوس کی بات یہ ہے کہ حسین آباد ٹرسٹ سے نو روپے ستر پیسے لینےکے لیے مجھے اپنی گاڑی سے پانچ سو روپے کا پیٹرول خرچ کرنا پڑتا ہے، ہم نے بار بار وثیقہ میں توسیع کی درخواست کی، لیکن ہماری درخواست پر کبھی شنوائی نہیں ہوئی۔'
وثیقہ کا رواج سنہ 1817 میں شروع ہوا۔ تاریخ دان ڈاکٹر روشن تقی بتاتے ہیں: 'اودھ کے نواب شجاع الدولہ کی اہلیہ بہو بیگم نے تقریباً چار کروڑ روپے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دو قسطوں میں اس شرط پر دیے کہ ان کے رشتہ داروں اور ان سے جڑے افراد کو ماہانہ پنشن دی جائے۔' اسے معاہدے کو امانت یا وثیقہ کہتے ہیں۔
اتر پردیش حکومت کے وثیقہ یا وِل افسر ایس پی تیواری کے مطابق: 'آزادی کے وقت بہو بیگم کے پاس ریزرو بینک آف کولکتہ میں تقریباً 30 لاکھ روپے جمع تھے۔ یہ رقم پہلے ریزرو بینک آف کانپور میں منتقل کی گئی اور اب تقریباً 26 لاکھ روپے لکھنؤ کے سنڈیکیٹ بینکہیں اور اسی کے سود سے وثیقہ دیا جا رہا ہے۔'
نوابوں کے قرضے اور موجودہ نظام
بہو بیگم کے بعد نواب بھی مختلف اوقات میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو قرض دیتے رہے۔
ڈاکٹر تقی کہتے ہیں: ’نواب وزیر غازی الدین حیدر اور ان کے بیٹے نواب ناصر الدین حیدر نے کمپنی کو تقریباً چار کروڑ روپے بطور ’دائمی قرض‘ دیے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اصل رقم کبھی واپس نہیں کی جائے گی، لیکن سود ان کے ورثاء اور ان سے وابستہ افراد کو نسل در نسل ملتی رہے گی۔‘
وِل آفس میں رکھے گئے وثیقہ کی دستاویزات کے مطابق ناصر الدین حیدر کے جانشین شاہ محمد علی شاہ نے بھی بارہ لاکھ روپے برطانوی خزانے میں جمع کرائے تھے۔
آزادی کے بعد اب بھی لکھنؤ میں تقریباً 1200 افراد وثیقہ حاصل کر رہے ہیں۔ پکچر گیلری میں اس مقصد کے لیے دو دفاتر قائم کیے گئے ہیں: ایک حسین آباد ٹرسٹ کے لیے اور دوسرا اتر پردیش حکومت کے وِل آفس کے لیے۔
سرکاری دفتر سے وثیقے اب براہ راست آن لائن بینک کھاتوں میں بھیجی جاتی ہیں، جبکہ حسین آباد ٹرسٹ اب بھی نقد ادائیگی کرتا ہے۔ دونوں دفاتر مل کر تقریباً پانچ لاکھ ساٹھ ہزار روپے سالانہ کے وثیقے یا پنشن تقسیم کرتے ہیں۔
شناخت اور آج کی مشکلات
بہت سے لوگ دونوں دفاتر سے وثیقہ وصول کرتے ہیں لیکن مشترکہ رقم بھی دس روپے تک نہیں پہنچ پاتی۔ پیشے کے اعتبار سے وکیل شاہد علی خان اپنے دادا نواب محمد علی شاہ کے وزیر تھے۔
شاہد بتاتے ہیں: ’مجھے چار روپے اسی پیسے کی سہ ماہی وصیت ملتی ہے اور دوسری ماہانہ وصیت تین روپے اکیس پیسے ہوتی ہے۔‘
اتنی چھوٹی وصیت ملنے پر شاہد کا کہنا ہے کہ ’اس وصیت کو پیسوں میں نہیں ماپا جا سکتا، یہ ہماری پہچان ہے، جس کی قیمت کروڑوں روپے ہے۔ یہاں صرف چند لوگوں کو وثیقہ ملتا ہے۔‘
وثیقے کی رقم چھوٹی ہونے کے باوجود اسے لینے کے لیے مخیر حضرات آتے ہیں کیونکہ وہ اسے نوابوں کی یادگار اور اعزاز سمجھتے ہیں۔
شاہد وثیقے میں موجود رقم کو تبرک بھی سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’میں سال میں ایک بار محرم سے پندرہ بیس دن پہلے وثیقہ لینے آتا ہوں تاکہ میں اسے محرم کے لیے استعمال کر سکوں۔ میں سال بھر اس کو جمع نہیں کرتا کیونکہ اگر میں کسی اور چیز پر ایک پیسہ بھی خرچ کروں تو قصوروار ہوں گا۔‘
فیض آباد میں نواب شجاع الدولہ کی ’دلکُشا کوٹھی‘ جہاں اب ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نصب ہوں گیواجد علی شاہ: عیش و نشاط کے رسیا ’نااہل حکمران‘ یا آرٹ کو فروغ دینے والے ہردلعزیز بادشاہبیگم حضرت محل جنھوں نے 1857 کی ’جنگِ آزادی‘ میں انگریزوں کا جینا دوبھر کر دیا تھابرطانوی وائسرائے کے دلی میں قتل کی ’سازش‘ جس کا سراغ لاہور کے لارنس گارڈن سے ملا
شکوہ آزاد کہتے ہیں: ’وثیقہ کے پیسے سے ہمارے پان ڈبے کے اخراجات پورے نہیں ہو سکتے، نہ ہی اس سے ہمارے گھریلو اخراجات پورے ہوں گے اور نہ ہی اس سے ہمارے بچوں کے لیے جیب خرچ پورا ہوگا۔ لیکن ہمیں فخر ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے یہاں حکومت کی، اگر ہمیں صرف ایک پیسہ مل جائے تو ہم ہزار روپے خرچ کر کے وثیقہ لینے آئیں گے۔‘
کئی لوگ بیرون ملک سے بھی وثیقہ لینے آتے ہیں۔ شکوہ کہتے ہیں: ’میرا کزن آسٹریلیا سے آیا اور دو سال کے وثیقے وصول کیے۔ کئی لوگ امریکہ اور انگلینڈ سے بھی آتے ہیں۔‘
تاہم تمام وثیقہ پانے والے اتنی اچھی حالت میں نہیں ہیں۔ محمد علی شاہ کے وارث ہونے کا دعویٰ کرنے والے ستر سالہ اعجاز آغا کہتے ہیں: ’ہمارے پاس کئی وثیقے تھے، لیکن پریشانی میں ہم نے کچھ رشتہ داروں کو بیچ دیے۔ اب ہمیں ہر تین ماہ بعد صرف انیس روپے اسی پیسے کا وثیقہ ملتا ہے، جسے ہم نذرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
کم ہوتی رقم اور بدلتی تصویر
ڈاکٹر تقی نے وثیقے میں کمی کی کئی وجوہات بیان کی ہیں: ’اگر کسی نواب کو پانچ سو روپے کا وثیقہ ملتا تھا اور اس کے پانچ بیٹے ہوتے ہیں، تو نواب کی وفات کے بعد وثیقہ پانچ حصوں میں تقسیم ہو جائے گا اور ہر ایک کو سو-سو روپے ملیں گے۔‘
’یہی وجہ ہے کہ وثیقے کی رقم میں نسل در نسل کمی آتی گئی۔ چھٹی یا ساتویں پشت تک آتے آتے کسی کے حصے میں وثیقے کے پانچ روپے آئیں گے تو کسی کے حصے میں دس روپے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پہلے وثیقہ چاندی کے سکوں میں ملتا تھا جو سوا تولے کا ہوتا تھا۔ جب وثیقہ چاندی کے سکوں کی بجائے روپے میں ملنے لگا تو اس کی قیمت میں نمایاں کمی واقع ہوگئی۔‘
فیاض علی خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ہمیں نوابوں کے زمانے کے حساب سے چار فیصد سود پر ہی وثیقہ مل رہا ہے جبکہ آج بینکوں میں سود کی شرح میں کافی اضافہ ہوا ہے۔‘
اب وثیقہ میں کمی کے حوالے سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ شاہد علی خان کا کہنا ہے کہ ’وثیقے کی رقم بڑھانے کے لیے لڑائی جاری ہے۔ میں ذاتی طور پر اس معاملے پر ہائی کورٹ جا رہا ہوں۔ ہم اپنے دلائل پیش کریں گے کہ وثیقے کو اب چاندی کے سکوں میں کیوں نہیں دیا جا رہا ہے اور اگر یہ چاندی میں نہیں دی جا سکتی تو کم از کم رقم چاندی کی موجودہ قیمت کے برابر دی جائے۔‘
اودھ کے نوابوں کے انتقال کے تقریباً 170 سال بعد بھی وثیقہ کی تقسیم جاری ہے لیکن اس کی دلکشی کم ہو گئی ہے۔
مسعود عبداللہ، جن کے اہل خانہ وثیقہ وصول کرتے رہے ہیں، یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’پہلے جب لوگ وثیقہ لینے آتے تھے تو الگ ہی منظرہوتا تھا، میلے کی طرح محسوس ہوتا تھا۔ وہاں طرح طرح کے شربت فروخت ہوتے تھے، گرمیوں میں پھالسے اور تربوز کے شربت ملتے تھے، سردیوں میں کشمیری چائے ملتی تھی۔ لوگ اکے، ٹانگے، فینس اور ٹم ٹم سے آتے تھے۔ پردہ دار خواتین کے لیے رکشوں، ٹانگے اور گھوڑا گاڑیوں پر پردے بندھے ہوتے۔‘
پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے فیاض علی کہتے ہیں: ’میرے والد بتاتے تھے کہ وثیقہ کی تقسیم کا منظر میلے کا سا ہوتا تھا، ہر قسم کی دکانیں سجی ہوتی تھیں، بازار لگتا تھا، کھانے پینے کی اشیا دستیاب تھیں اور پکچر گیلری میں سینکڑوں مخیر حضرات جمع ہوتے تھے، اب وہ ماحول ختم ہو گیا ہے۔‘
حکومت کی طرف سے وثیقے کی مسلسل تقسیم کے بارے میں اتر پردیش کے اقلیتی بہبود کے وزیر دانش انصاری نے کہا: ’وثیقہ کی روایت اودھ کے نوابوں کے دور سے ہے۔ نواب خاندان سے جڑے لوگ آج بھی موجود ہیں۔ حکومت کے پاس ایک کارپس ہے اور وثقیہ حکومتی پالیسیوں کے مطابق تقسیم کی جا رہی ہیں۔‘
کچھ لوگ ان وثیقوں کو جاگیردارانہ دور کی باقیات سمجھتے ہیں اور آج کے دور میں ان کی مطابقت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
لیکن حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ پنشن صرف پیسے کی نہیں ہے بلکہ ایک تاریخی وعدہ اور عزت و وقار کی علامت ہے جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
برطانوی وائسرائے کے دلی میں قتل کی ’سازش‘ جس کا سراغ لاہور کے لارنس گارڈن سے ملافیض آباد میں نواب شجاع الدولہ کی ’دلکُشا کوٹھی‘ جہاں اب ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نصب ہوں گیعلی گڑھ کے درزی جو ’چھوٹے نواب‘ سے صدور تک سبھی کے لیے خاص شیروانیاں تیار کرتے ہیںنظام حیدرآباد کے آخری وزیراعظم میر لائق علی انڈین نظر بندی سے فرار ہو کر پاکستان کیسے پہنچے؟ایسٹ انڈیا کمپنی: دنیا کی ’طاقتور ترین کارپوریشن‘ جس کے افسران کی کرپشن، بدانتظامی اور لالچ اس کے زوال کا باعث بنیسیف علی خان: پٹودی خاندان کے وارث بالی وڈ میں کیسے پہنچے