’کچھ تو ہے اپنے کامران بھائی ٹیسوری میں‘

بی بی سی اردو  |  Aug 19, 2025

سات لاکھ روپے کی لاگت سے 1939 میں تعمیر ہونے والے گورنر ہاؤس کراچی کے پہلے مکین سندھ کے پہلے گورنر سر لینسلاٹ گراہم تھے۔ ان کے بعد سر ہئیو ڈاؤ اور آخری انگریز گورنر سر فرانسس موڈی بھی یہاں رہے۔

تقسیم کے بعد یہ عمارت گورنر جنرل ہاؤس بن گئی۔ البتہ جناح صاحب نے اپنی رہائش کچھ فاصلے پر فلیگ سٹاف ہاؤس میں رکھی۔ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل ہاؤس میں رہے۔ آپ کو فرصت میں کمی کے لیے مرغیاں پالنے کا بھی شوق تھا۔

خواجہ صاحب کے بعد گورنر جنرل غلام محمد رونق افروز رہے اور یہیں سے انھیں ایک دن ڈنڈہ ڈولی کر کے کسی اور گھر میں لے جا کر ڈال دیا گیا۔ ملک صاحب کی جگہ اسکندر مرزا آئے تو گورنر جنرل بن کے مگر بطور صدر تب یہاں سے نکالے گئے جب ایوب خان کے اتحادی جرنیلوں نے ہاتھ میں قلم تھما کر اور سامنے بھرا پستول رکھ کے استعفی پر دستخط کروا لیے۔ کچھ عرصے یہ عمارت جنرل ایوب خان کے تصرف میں رہی اور پھر وہ راولپنڈی منتقل ہو گئے۔

چودہ برس ون یونٹ قائم رہا۔ اس کے ٹوٹنے پر مغربی پاکستان کے چار صوبے بحال ہوئےتو لیفٹیننٹ جنرل رخمان گل نے بطور مارشل لا گورنر اس عمارت کو مسکن بنایا۔ اس جگہ نے ممتاز بھٹو، میر رسول بخش تالپور، بیگم رعنا لیاقت علی خان، نواب دلاور خان جی، فخر الدین ابراہیم، محمود ہارون، حکیم محمد سعید، عظیم داؤد پوتا، ممنون حسین، محمد میاں سومرو، سعید الزماں صدیقی جیسی شخصیات بھی آتے جاتے دیکھیں۔

مگر گورنر ہاؤس میں رہنے کا ریکارڈ ڈاکٹر عشرت العباد نے قائم کیا۔ یعنی لگ بھگ چودہ برس (2002 تا 2016)۔

تقریباً تین برس سے یہاں اپنے کامران بھائی ٹیسوری فروکش ہیں۔ اس نادرِ روزگار شخصیت نے نہ صرف عام آدمی کے لیے گورنر ہاؤس کے دروازے کھول دیے بلکہ غربا میں راشن بھی بانٹتے ہیں،ڈبے میں پڑنے والی ایک، ایک عوامی درخواست خود پڑھ کے ترنت احکامات جاری کرتے ہیں۔ لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ عام آدمی کی خوشی کے لیے کبھی ناچ گا بھی لیتے ہیں۔ اسی لیے سوشل میڈیا پر اکثر وائرل رہتے ہیں۔

AFP via Getty Imagesڈاکٹر عشرت العباد لگ بھگ چودہ برس (2002 تا 2016) سندھ گورنر ہاؤس میں رہے۔

ان دنوں ان کی جو وڈیوز وائرل ہیں ان میں سے ایک میں آپ فرما رہے ہیں کہ 'ووٹ سوچ کر دینا۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ پہلے بھی تو دیا تھا۔'

یومِ آزادی پر موٹر سائیکل ریلی کی قیادت کرتے ہوئے آپ نے دشمن کو یوں للکارا کہ ’بھارتیوں! کراچی میں 50 لاکھ بائیکرز موجود ہیں۔ آئندہ میلی آنکھ اٹھائی تو یہ 40 لاکھ (50 میں سے دس لاکھ کم) موٹر سائیکل سوار میری قیادت میں تمہارے ملک بھارت اور انڈیا میں گھس جائیں گے۔ انشااللہ۔‘

آپ نے گورنر ہاؤس میں ’معرکہِ حق میوزیکل ایوننگ‘ کے سٹیج سے یہ خبر بھی بریک کی کہ ’بھائی واپس آ رہے ہیں کراچی کو ٹھیک کرنے۔‘ اس پر مجمع میں تو بجلی دوڑ گئی مگر ٹیسوری بھائی کی ایم کیو ایم پاکستان کو کرنٹ لگ گیا۔ چنانچہ اگلے روز آپسے ہی تردید کروائی گئی کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا جو نکالا جا رہا ہے۔

کامران ٹیسوری کا خاندانی کاروبار تو سونے اور زیورات کا ہے۔ مگر وہ اپنی قسمت بھی غالباً سونے کے پانی سے لکھوا کے لائے ہیں۔ ان کا اوپر کی جانب سفر 2004 میں وزیرِ اعلی ہاؤس سے شروع ہوا جب ارباب غلام رحیم کو پرویز مشرف نے سندھ کا وزیرِ اعلی بنایا۔ ارباب صاحب نہ صرف علمِ نجوم اور چلہ کشی میں دلچسپی رکھتے تھے بلکہ فروغِ دین کے بھی وکیل تھے۔

کامران ٹیسوری بھائی نے جانے کیا تسبیح پھیری کہ ارباب رحیم نے ان کے بھائی عرفان ٹیسوری کو مبینہ طور پر ’گولڈ سٹی پروجیکٹ‘ کے نام پر ایک تاریخی قبرستان کی حدود میں پڑنے والے 80 ایکڑ، والدِ محترم اختر علی خان کے نام پر دیہہ صفورا میں 54 ایکڑ اور آمری میں پانچ ایکڑ الاٹ کر دیے۔

حکومت بدلی تو آنکھیں بھی بدل گئیں۔ کسی دل جلے جیالے نے سندھ اسمبلی کی غلام گردش میں سابق وزیرِ اعلی ارباب غلام رحیم کو جوتا مار دیا۔ اس کے بعد وہ عوام میں نظر نہیں آئے۔ پیپلز پارٹی کی نئی سرکار محبانِ ارباب کے پیچھے لگ گئی۔

یہ ریاست ایسے تو دور تلک نہ چل پائے گیخواجہ میرے خواجہ، دل میں سما جاسلطنتِ عدلیہ کے ڈھلتے سائےکون یقین دلائے گا کہ سرسبز پاکستان سبز باغ نہیں؟

اپریل 2007 میں احتسابی ادارے نیب نے ٹیسوری ٹریڈنگ کمپنی کے خلاف طلائی زیورات کی ایکسپورٹ کے معاملے میں 17 کروڑ 20 لاکھ روپے کے ڈیفالٹ کی انکوائری شروع کر دی (2017 تک یہ کیس سندھ ہائی کورٹ کے حکمِ امتناعی کے ساتھ معلق رہا)۔

پھر یہ خبر شائع ہوئی کہ گولڈ سٹی لینڈ فراڈ کیس میں ماخوز کامران ٹیسوری اس وقت فرار ہو گئے جب پولیس انھیں پروجیکٹ کی نشاندہی کے بعد 18 جون 2008 کو مکلی سے ٹنڈو باگو ایک اور مقدمے کے سلسلے میں منتقل کر رہی تھی۔

کامران ٹیسوری کی فیملی نے ایک عدالتی گوہار لگائی کہ کامران فرار نہیں ہوئے بلکہ انھیں کراچی سے اغوا کیا گیا اور وزیرِ اعلی کے ایک فرنٹ مین کو چھ کروڑ دینے پر چھوڑ دیا گیا۔ 23 جولائی کو اس پیٹیشن پر ایک مقامی عدالت نے کامران ٹیسوری کے اغوا کا پرچہ درج کرنے کا حکم دیا۔

اس عدالتی حکم کے تین روز بعد 26 جولائی 2008 کو ایس پی کیماڑی راؤ انوار کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی کہ گذشتہ روز ہاکس بے کے ساحل پر گرفتاری سے بچنے کے لیے پولیس پارٹی پر فائرنگ کے بعد مفرور کامران ٹیسوری، ان کے بھائی عمران ٹیسوری اور ایک دوست خالد صدیقی کے خلاف ڈاکیارڈ تھانے میںپرچہ درج کر لیا گیا ہے۔ پھر خبر آئی کہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گزری تھانے اور منشیات رکھنے کے الزام میں پریڈی تھانے میں پرچہ کاٹا گیا ہے۔

پانچ نومبر کو پولیس نے کامران ٹیسوری کو اسلام آباد سے کراچی پہنچنے پر گرفتار کر کے جوڈیشل کسٹڈی لے لی اور نو روز بعد سیشن جج ساؤتھ نے انھیں پچاس ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔

کامران بھائی کی مشکلات تب ختم ہوئیں جب ڈاکٹر فاروق ستار مسلم لیگ فنکشنل چھڑوا کر انھیں فروری 2017 میں ایم کیو ایم پاکستان میں سینیٹ کے ٹکٹ کے وعدے پر لے آئے اور ترنت رابطہ کمیٹی کا رکن اور پھر ڈپٹی کنوینر بنا دیا۔ اس پر فاروق بھائی کے دیگر ساتھی طیش میں آ گئے۔

رابطہ کمیٹی کے ایک رکن نے کہا پارٹی برائے فروخت نہیں۔ دوسرے نے کہا پیرا شوٹ سے اترنے والے نہیں چلیں گے۔ سینیئر ترین رہنما فاروق ستار نے 'مہمان' کے آگے اس سبکی کو دل پر لے لیا۔ آپس میں چھیچھا لیدر جاری رہی۔ مگر کامران ٹیسوری صوبائی اسمبلی کی ایک نشت کے ضمنی انتخاب کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ البتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار سعید غنی کے 23840 ووٹوں کے مقابلے میں 18106 ووٹ لے پائے۔ اس شکست سے پارٹی میں فاروق ستار کی مزید سبکی ہوئی۔ چنانچہ وہ اپنا دھڑااٹھا کے اپنے پی آئی بی کالونی کے گھر لے آئے۔

روٹھنے منانے اور پھر روٹھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران جانے کیسے یہ چمتکار بھی ہوا کہ کامران ٹیسوری کو مارچ 2018 کے سینیٹ انتخابات کے لیے ٹکٹ مل گیا مگر وہ پھر ہار گئے۔ اس پر کامران بھائی ٹیسوری کا دل ٹوٹ گیا اور ان کا نام سرخیوں سے بتدریج اوجھل ہونے لگا۔

جولائی 2018 میں ایم کیو ایم پی کے دونوں دھڑے ایک ہو کر عام انتخابات لڑے مگر پی ٹی آئی چونکہ ڈارلنگ جماعت تھی لہذا کراچی کی اکیس میں سے چار سیٹیں ہی ایم کیو ایم پی کے ہاتھ آئیں اور پھر یہ حکم بھی ملا کہ بنا چوں چراں عمران خان کی قیادت میں مخلوط حکومت کا حصہ بننا ہے۔

اپریل 2022 میں پونے چار سال بعد عمران خان کے ستارے گردش میں آ گئے۔ عدالت رات بارہ بجے کھل گئی۔ پارلیمنٹ کے سامنے قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیاں لگ گئیں۔ قالین الٹا ہو گیا۔ شہباز شریف کی عبوری حکومت میں ایم کیو ایم پی بھی شامل ہو گئی۔

ستمبر 2022 میں کامران ٹیسوری کو ایم کیو ایم پی نے بخوشی قبول کر کے انھیں ڈائریکٹ ڈپٹی کنوینر بنا دیا اور ایک ماہ بعد آپ مکمل پروٹوکول کے ساتھ گورنر ہاؤس میں داخل ہوئے۔

نگراں حکومت آئی چلی گئی۔ شہباز شریف کی 'چنتخب' حکومت پھر سے قائم ہو گئی۔ پیپلز پارٹی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا۔ مگر کامران بھائی ٹیسوری کا بال بیکا نہیں ہوا۔

گذشتہ برس اگست میں مسلم لیگ ن نے بھی ایم کیو ایم سے کہا کہ کوئی دوسرا اردو بولنے والا گورنر ڈھونڈنے میں آخر کیا حرج ہے۔ سینیر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا حکومت چھوڑ دیں گے کامران بھائی ٹیسوری کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس انتہائی بیان پر فاروق ستار کے کچھ ساتھیوں نے انہیں بغور دیکھا بھی اور دل ہی دل میں بھی کچھ کہا۔

کچھ تو ہے اپنے کامران بھائی ٹیسوری میں کہ اسٹیبلشمنٹ سےفاروق ستار تک سب لٹو ہیں۔ پیپلز پارٹی کتنے بھی دانت پیستی رہے۔ بھلے ایم کیو ایم پی کے دیگر رہنما ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کسی مجبور بہو کی طرح کچھ بھی بڑ بڑ کرتے رہیں۔

دشمن کی ناک رگڑوانے کا قاتل شوقجنگ ہم کریں اور چھڑوائیں دوسرےہمارا جو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ کے دکھاؤدشمن کی ناک رگڑوانے کا قاتل شوق’شہباز اور زرداری کی جوڑی سلامت رہے‘’کیا ٹرمپ ہمارا ابا لگتا ہے؟‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More